Karachi Land Mafia

پاک سرزمین پر لاقانونیت خودرو جنگلی پودوں کی طرح پھل پھول رہی ہے، لیکن شہرِ قائد میں لاقانونیت جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی ہے اور اس آگ میں جل کر سب بھسم ہونے کو تیار ہے۔ زندگی کے کسی بھی شعبے میں قانون کی حکمرانی تو کجا قانون تک نظر نہیں آتا۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق ہر شعبے میں طاقت، غنڈہ گردی اور قانون شکنی کا راج ہے۔ لاقانونیت کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اگر کہیں قانون کی کرن نظر آتی ہے تو وہ اب بھی عدلیہ ہے۔
عدالتِ عظمیٰ نے 24 جون کو کراچی میں اپنے ایک فیصلے میں حکم دیا ہے کہ کراچی کی 59 ہزار ایکڑ اراضی سرکاری اداروں اور نجی افراد کے قبضے سے واگزار کی جائے۔ چیف جسٹس آف پاکستان تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بورڈ آف ریونیو اور صوبائی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ چھ ماہ میں مذکورہ اراضی کو واگزار کرانے کے اقدامات کرے۔ تفصیلات کے مطابق عدالت کے حکم پر ممبر ریفارمز آف بورڈ آف ریونیو ذوالفقار علی شاہ اور سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو ملک اسرار نے عدالت کے استفسار پر بتایا کہ کراچی کی 59 ہزار 803 ایکڑ سرکاری زمین پر نجی اور سرکاری ادارے قابض ہیں جس کی تفصیل یہ ہے کہ 5257 ایکڑ زمین ڈی ایچ اے اور 769 ایکڑ کے پی ٹی کے قبضے میں ہے، ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے 9512 ایکڑ اراضی کا بغیر رقم کی ادائیگی کے الاٹمنٹ حاصل کرلیا ہے، ایم ڈی اے نے 3158 ایکڑ اراضی پر غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے، جب کہ ایل ڈی اے کے قبضے میں 8175 ایکڑ اراضی ہے، پورٹ قاسم اور ملیر کینٹ نے بالترتیب 3960 اور 1522 ایکڑ اراضی پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ جعلی گوٹھوں کے نام پر 6528 ایکڑ، اور 1216 ایکڑ پر ناجائز تجاوزات قائم ہیں۔ یہ تو اُس اراضی کا ریکارڈ ہے جو محکمہ ریونیو نے عدالت میں پیش کیا ہے، جب کہ فی الحقیقت کراچی میں مزید ایسی سینکڑوں ایکڑ اراضی اب بھی موجود ہے جس پر ناجائز تجاوزات اور قبضہ قائم ہے۔ ان میں پارکس، رفاہی پلاٹ اور گرین بیلٹ شامل ہیں، جب کہ بدنام زمانہ چائنا کٹنگ کے ذریعے سینکڑوں ہزاروں ایکڑ اراضی فروخت کی جا چکی ہے۔
سوال یہ ہے کہ زمینوں پرقبضے کا ذمہ دار کون ہے؟ پارکوں اور رفاہی پلاٹوں پر قبضہ مافیا کس کی سرپرستی میں سرگرم عمل ہے؟ اور قطعاتِ اراضی کی چائنا کٹنگ کس کے ایماء پر ہو رہی ہے؟ اس حوالے سے ایک پٹیشن سپریم کورٹ میں سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی تھی جس میں کراچی کے پارکوں پر ایک لسانی سیاسی گروہ کے قبضے کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے واگزار کرانے کی درخواست کی گئی تھی۔ لیکن اب تک اس بارے میں کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوئی۔ اسی طرح کچی آبادیوں اور جعلی گوٹھوں کے نام پر سرکاری اراضی پر قبضہ کیا جاتا ہے اور پھر غیرقانونی قبضہ کو الاٹمنٹ کی صورت میں قانونی قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہ ناجائز اور حرام کاروبار کئی عشروں سے کراچی شہر میں جاری ہے۔ اگر کراچی میں سرکاری اراضی پر قبضے اور لینڈ مافیا کی سرپرستی کا معلوم کرنا ہے تو اس کے لیے کسی تحقیقی و تفتیشی ادارے کی ضرورت نہیں ہے، یہ سب کچھ ہماری اور آپ کی آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے اور اس کے مجرم بعض سیاسی گروہ اور حکمران ہیں۔ حکمران اور بااثر مسلح سیاسی گروہ کراچی کی زمین کے سب سے بڑے سوداگر ہیں۔
یہ بات یقینا خوش آئند ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی کوششوں کے نتیجے میں سرکاری اراضی پر ناجائز قبضے کی تفصیلات منظر عام پر آگئی ہیں اور سپریم کورٹ نے اس اراضی پر قبضہ ختم کرانے کے لیے چھ ماہ کی مہلت بھی دے دی ہے۔ لیکن ہمیں شبہ ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوسکے گا اور اس کی راہ میں قانونی موشگافیوں اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے اس اراضی کی بندربانٹ کی جائے گی۔ ہماری دانست میں کراچی میں سرکاری اراضی کے تحفظ کے لیے ایک مستقل عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے جو نہ صرف مذکورہ بالا فیصلے پر عملدرآمد کو یقینی بنائے بلکہ محکمہ ریونیو میں بدعنوانیوں پر نگاہ رکھے اور حکمرانوں کو سرکاری اراضی کو مالِ مفت سمجھ کر ہڑپ کرنے سے روکے۔
پنجاب میں سرکاری اراضی کو قبضہ اور لینڈ مافیا سے محفوظ رکھنے کے لیے سرکاری زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے کے منصوبے پر کام شروع ہوچکا ہے۔ سندھ اور بالخصوص کراچی میں بھی سرکاری زمینوں کو لٹیروں سے بچانے کے لیے تمام زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ جسٹس تصدق جیلانی کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی عدالتِ عظمیٰ اس فیصلے کا تعاقب کرے گی اور اس کے نفاذ کے لیے ہر ممکن عملی اقدامات کیے جائیں گے۔
بلال احد
Karachi Land Mafia

Labour Life in Karachi

کراچی کی معیشت میں روزانہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں،اس طبقے میں وزن اٹھانے اور سامان کی ترسیل کرنے والے مزدور شامل ہیں۔
  بولٹن مارکیٹ پر کام کرنے والے مزدور فاضل خان نے بتایا کہ کراچی میں ہر برادری اور قوم سے تعلق رکھنے والے افراد مزدوری کا کام کر رہے ہیں۔
ان مزدوروں میں اکثریت پختون، بلوچ ، ہزارہ وال ، سرائیکی کمیونٹی کی ہے تاہم وزن اٹھانے کا زیادہ تر کام پختون اور بلوچ کمیونٹی کرتی ہے، اس کے علاوہ دیگر کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی کم تعداد میں وزن اٹھانے کا کام کرتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ وزن اٹھانے اور اسے منتقل کرنے کا کام انتہائی محنت طلب ہے لیکن اپنے اہل خانہ کی کفالت کے لیے یہ کام کرنے پر مجبور ہیں، ایک اور مزدور احمد خان نے بتایا کہ خیبرپختونخوا اور فاٹا کے علاقے میں روزگار کے ذرائع کم ہیں، اسی لیے ہم لوگ اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر کراچی آتے ہیں اور جن افراد کے پاس کوئی ہنر نہیں ہوتا وہ وزن اٹھانے اور اس سامان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا کام کرتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ کراچی ملک کا واحد شہر ہے جہاں روزگار آسانی سے مل
 جاتا ہے اور ہم دو وقت کی روٹی عزت کے ساتھ کما لیتے ہیں تاہم جب شہر کے حالات خراب ہوں یا احتجاج ، ہڑتال اور سرکاری تعطیلات کے باعث مارکیٹیں ، بازار اور دیگر کاروباری سرگرمیاں معطل ہوں تو ہماری چھٹی ہوتی ہے اور اس روز ہمیں اجرت نہیں ملتی، ہم روز کھانے اور روز کمانے والے لوگ ہیں، انھوں نے بتایا کہ ہم لوگ صبح فجر کی اذان سے قبل اٹھ جاتے ہیں، نماز پڑھ کر 7 بجے کے بعد اپنی متعلقہ جگہوں پر پہنچ جاتے ہیں پھر جیسے جیسے کاروباری سرگرمیوں کا آغاز ہوتا ہے تو ہمیں کام ملنا شروع ہو جاتا ہے اور رات 8 بجے تک ہم لوگ وزن اٹھانے اور اس کی منتقلی کا کام کرتے ہیں اور پھر واپس اپنے گھروں کو روانہ ہو جاتے ہیں۔
مقامی بس اڈے پر مزدوری کا کام کرنے والے شخص شاہنواز بلوچ نے بتایا کہ وزن اٹھانے کا کام اس لیے کرتے ہیں کہ ہم نے تعلیم حاصل نہیں کی، اگر پڑھ لیا ہوتا تو آج یہ کام نہیں کرتے لیکن خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں روزگار دیا ہے، بس ہماری دعا ہے کہ شہر کے حالات اچھے رہیں تاکہ ہماری دال روٹی بھی چلتی رہے ، انھوں نے بتایا کہ مہنگائی، بے روزگاری اورغربت کی وجہ سے پڑھے لکھے نوجوانوں کو بھی اب نوکری نہیں مل رہی ہے، اسی لیے پڑھا لکھا طبقہ بھی مزدوری کا کام کرنے پر مجبور ہے۔
مزدوروں کی بڑی تعداد6سے8ماہ کراچی میں محنت مزدوری کرکے واپس اپنے آبائی علاقوںمیں چلی جاتی ہے،ایک سے 2 ماہ آرام کرکے یہ مزدور طبقہ واپس کراچی آجاتا ہے، زیادہ ترمزدور مشترکہ رہائش اختیار کرتے ہیں ،ان مزدوروں میںزیادہ ترکا تعلق ایک ہی خاندان یا علاقے سے ہوتا ہے ، وزن اٹھانے کے سبب مزدوروںکی بڑی تعداد کمر کی تکلیف میں مبتلا ہو جاتی ہے اور ان کو پائوں اور گھٹنوں کے درد کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔
وزن اٹھانے والے مزدوروں کی اکثریت ضلع جنوبی میں کام کرتی ہے کیونکہ یہ ضلع کراچی کا معاشی حب ہے ،اس ضلع میں کراچی کی بڑی اجناس مارکیٹ کے علاوہ دیگر روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی اشیا اور دیگر سامان کی ہول سیل مارکیٹیں ہیں ،مزدوروں کی بڑی تعداد وزن اٹھانے کا کام انہیں مارکیٹوں اور بازاروں میں کرتے ہیں ۔ سامان اٹھانے اور منتقل کرنے کی مختلف اجرت وصول کی جاتی ہے۔
اجناس کی ایک بوری کا وزن اٹھانے کے 30 روپے لیے جاتے ہیں جبکہ دیگر پیکنگ سامان اور اشیا کا وزن اٹھانے اور انہیں ہاتھ گاڑی پر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے 80 روپے سے 200 روپے تک لیے جاتے ہیں، الیکٹرونکس آئٹم کو بڑی لوڈنگ گاڑیوں سے اتارنے، چڑھانے یا ان کی منتقلی کے 50 روپے سے 150 روپے تک لیے جاتے ہیں ، اس حوالے سے مختلف مزدوروں کا کہنا ہے کہ سارا دن وزن اٹھانے اور ان کی منتقلی کا کام کرنے کے بعد 400 روپے سے 800 روپے تک کی آمدنی ہو جاتی ہے ۔
کراچی کی اہم مارکیٹوں ، بازاروں ، منڈیوں ، بس اسٹینڈ اور ٹرک اڈے پر سامان کی ترسیل کے لیے ہاتھ گاڑی ، ٹھیلے اور گدھا گاڑی استعمال کی جاتی ہے،ہاتھ گاڑی لکڑی کی بنی ہوئی ہوتی ہے ،اس گاڑی کی تیاری میں کیکر اور بعض میں شیشم کی لکڑی بھی استعمال ہوتی ہے ، یہ خصوصی گاڑیاں لیاری ، رنچھورلائن ، لیاقت آباد اور دیگر علاقوں میں خصوصی کارپینٹرز تیار کرتے ہیں جن کی تعداد 30 سے 40 کے درمیان ہے۔
یہ ہاتھ گاڑی کم از کم 3 ہزار سے لے کر 6 ہزار روپے تک تیار ہوتی ہے،ایک ہاتھ گاڑی پر زیادہ سے زیادہ وزن 700 سے 800 کلو تک مزدور طبقہ اپنی طاقت سے کھینچ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتا ہے، اجناس منڈی میں سامان کی ترسیل کیلیے گدھا گاڑی بھی استعمال کی جاتی ہے جبکہ ٹرک اڈے پر وزن کی ترسیل کیلیے اونٹ گاڑی بھی استعمال کی جاتی ہیں،زیادہ تر مارکیٹوں میں سامان کی ترسیل کے لیے ٹھیلے بھی استعمال کیے جاتے ہیں 
،ایک ٹھیلا 4 ہزار سے 6 ہزار کے درمیان تیار ہوتا ہے۔
Labour Life in Karachi

Bahria Town

Bahria Town officially Bahria Town (Pvt) Ltd. is the largest real-estate developers and Investors in Pakistan and the largest private housing society in Asia.[1] Bahria Town has establishments in Islamabad (Phase 2 to 7 and enclave), Rawalpindi(Phase 1 and 8), Lahore, Murree and Karachi.[2] Bahria Town is a mega gated community, worth $6 billion only in twin citiesIslamabad and Rawalpindi where it is the original community with nine phases, which has a capacity of a planned residential city for 1 million people. The Town’s offers amenities (24-hour armed security, schools, hospitals, a fire department, retail shopping, restaurants and entertainment centers).
Given the Pakistan‘s security issues, Bahria Town remain the safest place to live with a lower crime rate than other developments. Rival Pakistani developer, Defence Housing Authority, have built similar gated communities in the suburbs of major Pakistani cities such as Karachi. Bahria Town operate’s Pakistan’s largest private sector fleet of heavy earth moving equipment and the service workshops. Bahria is also building the First Formula 1 racing track with full proof safety provided to Bahria Town residents. It employs over 20,000 workforce with. Recently Bahria Town announced its collaboration withStarwood Hotels for the opening the Sheraton Golf & Country Club, which would be the first of its kind in Pakistan. Malik Riaz Hussain, Founder and Chairman, is the force behind Bahria Town, started in the 1980s as a small-time contractor. As competitors targeted the rich, he built for the emerging middle class, becoming one of the wealthiest Pakistanis alive.[3] In May 2012, Bahria Town won five awards at the Asia Pacific International Property Awards.[4][5]
Bahria has been featured by international magazines and news agencies, referred to as the prosperous face of Pakistan. According to Emirates 24/7 Bahria Town is ‘where Pakistan’s new middle class takes refuge from the Taliban attacks and endless power cuts that plague the rest of the country.’[6] GlobalPost claimed that in 2013, Bahria houses some 100,000 people in total.[7] Newsweek calls it as Pakistan’s Gateway to Paradise.[8] On October 6, 2011, Los Angeles Times refereed Bahria as ‘functioning state within a non-functioning one’.[9] Regardless of that Bahria has been subject to controversies, it is referred to as a symbol of inequality, blamed for illegal encroachment of forests and unholy alliance with military.[9]