کراچی آج اور کل

رکھنے کی خاطر میں نے آج کے قصے کا نام اور عنوان رکھا ہے۔ کراچی آج اور کل۔ میری مراد ہے گزرا ہوا کل۔ کراچی کا آج آپ کے سامنے ہے۔ آپ سے کچھ ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ جو لوگ دور اندیش ہیں، visionary ہیں۔ آنے والے کل میں دور تک دیکھ سکتے ہیں وہ لوگ جانتے ہیں بلکہ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ کراچی کا آنے والا کل کیسا ہو گا۔ آج سے پانچ برس بعد کس قد کاٹھ، خدوخال، رنگ و نسل کے لوگ کراچی میں آپ کے ساتھ شانہ بشانہ چل رہے ہوں گے! وژنری لوگ بہت دور تک دیکھ سکتے ہیں۔ دس برس بعد دیگر پاکستانیوں کو کراچی دیار غیر دکھائی دیگا۔ آج کا شہر کراچی آپ کے سامنے ہے۔ جو چیز آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے اس کے بارے میں بات کرنا فضول ہے۔ اگر آپ نے زندگی میں لومڑ نہیں دیکھا ہے تو پھر کسی سے یہ پوچھنے کے بجائے کہ لومڑ کیسا ہوتا ہے، آپ چڑیا گھر یعنی zoo جائیں اور اپنی انکھوں سے لومڑ دیکھ لیں۔ آپ کو پتہ چل جائے گا کہ لومڑ آدمی نہیں ہوتا۔ یہ الگ بات ہے کہ آدمی حالات کے ہاتھوں لومڑ بن جاتا ہے۔ کچھ لوگ گیدڑ بن جاتے ہیں۔ کچھ لوگ بھیڑیے بن جاتے ہیں مگر لومڑ، گیدڑ اور بھیڑئیے غیرت مند ہوتے ہیں۔ وہ آدمی نہیں بنتے۔

آپ فقیر سے کل کے کراچی کے قصے سنیے… نہ جانے کیوں مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ جس دور کے قصے میں آپ کو سنانے جا رہا ہوں اس دور میں آپ دھرتی سے بہت دور تھے آپ نے تب جنم نہیں لیا تھا۔ ہم لوگ تب انگریز کی غلامی میں ذلت کی زندگی گزار رہے تھے۔ جس طرح کی خداداد آزادی آپ کو میسر ہے۔ ہم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اس سے بڑی بدنصیبی اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک آدمی اپنی مرضی سے دوسرے کسی آدمی کو قتل نہ کرسکے۔ انگریز کی غلامی میں ہمیں اجازت نہیں تھی کہ ہم ایک دوسرے کو قتل کرتے پھریں۔ خودکش بم دھماکوں میں ملعونوں کو جہنم رسید کرتے رہیں۔ ایسے قابل ستائش کام صرف آزادی کے دور میں کئے جاتے ہیں۔ غلامی کے دور میں نہیں۔ آپ بڑے خوش نصیب ہیں کہ ایسے قابل ستائش کام آپ اپنے دور میں، اپنی آنکھوں سے ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ مبارک ہو۔ ہم چونکہ غلام تھے اس لئے کسی سے نہ رشوت لے سکتے تھے اور نہ کسی کو رشوت دے سکتے تھے۔ آپ آزاد ہیں۔ آپ پر رشوت لینے اور رشوت دینے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ غلامی کے دور میں ہم غلاموں کے اختیارات بڑے محدود ہوتے تھے۔ اس لئے ہم اربوں اور کھربوں کی خوردبرد نہیں کرسکتے تھے۔ سرکاری خزانہ خالی کر کے بیرون ملک اپنی تجوریاں بھر نہیں سکتے تھے۔ ایسی نعمتیں صرف آزادی کی دین ہیں۔ ہم تو غلام تھے۔ ذلت کی زندگی گزارتے تھے۔ 
یہ جو باتیں میں آپ کو سنا رہا ہوں وہ سنی سنائی نہیں ہیں۔ اور یہ باتیں فرمائشی نصابی کتابوں اور تاریخ میں لکھی ہوئی نہیں ہیں۔ فقیر ان باتوں کا چشم دید گواہ ہے۔ میں چونکہ غلامی کے دور میں پیدا ہوا تھا اس لئے میرا لاشعور غلام کراچی کی یادوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہے۔ آپ بڑے خوش نصیب ہیں کہ آپ کا لاشعور آزاد کراچی کی دلفریب حسنا کیوں سے لبریز ہے۔ آزادی بڑی نعمت ہے میرے بھائیو اور بہنواور بچو… آپ ریل کی پٹری پر گھر بنا کر بیٹھ جائیں۔ کوئی آپ کو بے دخل نہیں کرے گا۔ ریل گاڑی بند کر دی جائے گی۔ آج میں آپ کو غلام کراچی کے کچھ قصے سناتا ہوں جو مجھے پریوں کی کہانیوں کی طرح اچھی لگتی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے قصے سننے سے پہلے آپ ہمارے دور کے غلام کراچی شہر کا نقشہ ذہن نشین کر لیں۔ کراچی کا شہر کیماڑی سے شروع ہو کر ٹکری پر ختم ہو جاتا ہے۔ ٹکری چھوٹی سی پہاڑی کو کہتے ہیں۔ ٹکری پر قائد اعظم محمد علی جناح کا مقبرہ بنا ہوا ہے۔ ٹکری کے ایک طرف بیرون ملک کاروبار کرنے والے ارب پتی عامل ہندوئوں کی کالونی ہوتی تھی اور دوسری جانب خدا کے نام پر دل کھول کر سخاوت کرنے اور کراچی کو خوبصورت بنانے والے پارسیوں کی کالونی تھی۔ پاکستان بھر سے جب بھی لوگ کراچی آتے ہیں تب سمندر دیکھنے کیلئے کلفٹن ضرور جاتے ہیں۔
کلفٹن کا چپہ چپہ جہانگیر کوٹھاری اور دیگر پارسیوں کا بنایا ہوا ہے۔ جہانگیر پیریڈ کی سرخ پتھر سے بنی ہوئی سیڑھیاں، چبوترہ، منسلک باغ کا نام بھائی لوگوں نے بدل کر باغ ابن قاسم رکھ دیا ہے یعنی قاسم کے بیٹے کا باغ۔ قاسم کون تھا؟ قاسم کے کتنے بیٹے تھے؟ قاسم کے کس بیٹے نے کراچی کی تعمیر میں کیا کردار ادا کیا تھا؟ غلام کراچی کے ہم غلامانہ سوچ رکھنے والے گنتی کے چند باسی ابھی زندہ ہیں۔ ہم آزادی کی روایتوں سے نابلد ہیں۔ ہم آئن اسٹائن کی کسی تھیوری کو عبدالقدوس ابن عبدالجبار ابن عبدالغفار ابن عبدالقہار سے منسوب نہیں کرتے۔ جو کارنامہ آپ کا نہیں ہے، وہ کارنامہ آپ کا نہیں ہے۔ کرشن چندر کا افسانہ سندھی میں لکھ کر شائع کرانے سے کرشن چندر کا افسانہ میرا نہیں ہو سکتا۔
دنیا بھر کے تہذیب یافتہ معاشروں میں جیل شہر سے دور بنائے جاتے ہیں۔ غلام کراچی کا جیل ٹکری سے تین چار میل دور ہوتا تھا۔ اب وہی جیل گنجان آبادیوں کے درمیاں شہر کے بیچوں بیچ وہیں اپنی جگہ موجود ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے آئے دن طرح طرح کی فہرستیں شائع ہوتی رہتی ہیں۔
امیر ممالک، غریب ممالک، خطرناک ممالک، مہنگے ممالک، سستے ممالک۔ اچھا ہے کہ اقوام متحدہ نے آج تک دنیا کے مقروض ممالک کی فہرست جاری نہیں کی ہے۔ ورنہ ہم سرفہرست ہوتے۔ شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جو ہم سے زیادہ مقروض ہو۔ میں نے بارہا سرکار سے گزارش کی ہے کہ ورلڈ بنک سے قرضہ لیں اور کراچی کا جیل شہر سے کوسوں دور جاکر بنائیں۔ ایک مرتبہ کسی بلڈر نے سرکار کو پیشکش کی تھی کہ موجودہ جیل کی زمین اسے الاٹ کی جائے اور وہ بدلے میں شہر سے دور جدید جیل بنا کر دے گا۔ حکام اعلیٰ کو تجویز اچھی لگی تھی مگر تجویز پیسے کے لین دین اور بندر بانٹ میں الجھ کر رہ گئی۔ بڑھاپا اور بے خودی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ گھر سے ارادہ عبادتگاہ جانے کا کرکے نکلتے ہیں اور میکدے میں جاکر بیٹھ جاتے ہیں۔ ہم تو اب بھی زاہد سے پوچھتے ہیں کہ بھائی ناراض کیوں ہوتے ہو۔ ہمیں وہ جگہ بتا دو جہاں پر خدا نہ ہو۔ غلام کراچی کی کتھا شروع ہونے سے پہلے باتیں سنانے اور باتیں بنانے کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ غلام کراچی کے پریوں جیسے قصے میں آپ کو اگلے منگل کے روز سنائوں گا۔ تب تک آپ جنگل اور دنگل کے بارے میں سوچئے۔

امر جلیل

کراچی اب اتنا بھی بُرا نہیں

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر، سب سے خوبصورت اور پاکستان کی معاشی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتا ہے۔ نقشے میں دیکھ کر جغرافیائی لحاظ سے کہا جائے تو پاکستان کے ایک کونے میں یہ شہر آباد ہے۔ مگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو بلا مبالغہ یہ پورے پاکستان کا دل ہے لیکن نہ جانے دنیا والے ایسی عینک لگا کر کیوں بیٹھے ہیں کہ انہیں کراچی کی خامیاں ہی دکھائی دیتی ہیں۔

اب امریکی نائب صدر جوبائیڈن کے دورہ روم کی ہی مثال لیجئے۔ وہاں کے اخبارات نے جو بائیڈن کے وی وی آئی پی پروٹوکول اور غیر معمولی سیکیورٹی پر طنز کرتے ہوئے یہ سرخی جمائی کہ، کیا ہوگیا بھائی یہ روم ہے اس کو ”کراچی سمجھ لیا“ ہے کیا؟۔
یہ بات درست ہے کہ اس شہر نے پورے ملک کی بہ نسبت بُرے حالات سب سے زیادہ دیکھے ہیں مگر پھر بھی کیا دنیا کو یہ نظر نہیں آتا کہ یہاں رہنے والے کتنے بلند عزم و حوصلے والے ہیں۔ اگر ایسے کٹھن حالات سے کوئی اور ملک یا شہر دوچار ہوتا تو اب تک وہ کھنڈرات میں بدل چکا ہوتا اور وہاں آبادی کا نام و نشان مٹ چکا ہوتا۔ مگر اہل کراچی نے ان سب آزمائشوں کا صبر و حوصلے کے ساتھ مقابلہ کیا اور آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ اس شہر کی رونقیں اور خوشیاں جو ماند پڑھ گئی تھیں دوبارہ لوٹ رہی ہیں۔

دوسری بات روم کی طرح کراچی کسی ایک قوم، سوچ یا مذہبی شناخت رکھنے والوں کی جاگیر نہیں بنا بلکہ یہ وہ شہر ہے جو دو کروڑ سے زائد نفوس سمیٹے ہوئے ہونے کے باوجود اپنے دامن کو مزید آنے والوں کے لئے تنگ نہیں کرتا۔ یہاں پاکستان کے تمام علاقوں کی نمائندگی کرنے والے موجود ہیں اور پورے پاکستان کی ثقافت کا بہترین امتزاج یہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔

صرف پاکستان ہی نہیں یہ شہرمصائب کا شکار ہونے والے دیگر ممالک کے تارکینِ وطن کو بھی اپنی آغوش میں پناہ دیئے ہوئے ہے۔ آپ کراچی میں افغانی، بنگالی، برمی، ایرانی، عربی، بھارتی اور دیگر ممالک سے آئے باشندوں کی بڑی بڑی آبادیاں دیکھ سکتے ہیں۔
پھر مذہبی لحاظ سے دیکھا جائے تو فرقہ واریت کے جراثیم موجود ہونے کے باجود، شہر قائد میں مسلمانوں کے تمام مسالک کے علاوہ، ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، کیمونیسٹ سب کی عبادت گاہیں بھی یہاں موجود ہیں اور تمام مذاہب کے پیروکار یہاں دیگر انسانوں کے ساتھ گھل مل کر بھی رہتے ہیں۔
یہ ایسا شہر ہے، جس کی بندرگاہ کو دنیا کے بڑے بڑے ممالک اپنی مجبوری سمجھتے ہیں۔ دفاعی اعتبار سے بھی اگر دیکھا جائے تو کراچی پورے خطے میں ایک خاص شناخت اور اہمیت رکھتا ہے۔ اس لئے یہاں پیدا ہونے والا انتشار اور بد امنی داخلی عناصر سے زیادہ عالمی سازشوں کا نتیجہ ہے۔ کیوںکہ حاسد دنیا پاکستان کے مثبت شناخت کو دھندلا کرکے ہمیشہ اسے ایک بُری مثال کی طرح ہی پیش کرنی پر تلی ہوئی ہے۔
میں اپنے شہر سے محبت کا اظہار کررہا ہوں، اس تحریر کا مقصد روم کی برائیاں کرنا یا اُسے نیچا دکھانا نہیں ہے۔ تاہم یہ دیکھ اور پڑھ کر دکھ ضرور پہنچتا ہے کہ کسی بُری اور منفی چیز کو بیان کرنے کے لئے کوئی کراچی کو بطور مثال پیش کرے۔
ایسی خبریں اگر عالمی میڈیا کی زینت بن رہی ہیں تو اِس عمل کو ہمارے لئے بھی تازیانے کا کام چاہیئے۔ ہمیں اب اپنی غلامانہ سوچ کو ختم کرتے ہوئے خواص کے لیے اپنائے گئے وی آئی پی کلچر کو ختم کرنے کا سوچنا ہوگا تا کہ دنیا کو تنقید کے بجائے تعریف کا موقع مل سکے۔
ترقی یافتہ اور مہذب ممالک کی دیگر خوبیوں کو اپناتے ہوئے کراچی کی صورتحال کو بہتر بنایا جاسکتا ہے مگر یہ تب ہی ممکن ہوگا جب ہم افرادی سوچ کے دائرے سے نکل کر ایک ملک اور ایک قوم بن کر سوچنا شروع کردیں گے اور پھر اپنی سوچ و فکر کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جدوجہد بھی کریں گے۔
میں یہاں سارے قارئین کو دعوت دے رہا ہوں کہ اپنے اس شہر کی خوبیاں اور صفات بیان کریں تاکہ دنیا اس کے مثبت چہرے کو بھی نظرانداز نہ کر پائے۔
محمد نعیم

کراچی: ایک ماڈل شہر

حال ہی میں جماعت اسلامی کے امیر اور سینیٹر سراج الحق کا بیان اخبارات کی زینت بنا کہ ہم کراچی شہر کو عالم اسلام کے لیے ایک ماڈل شہر بنائیں گے، قیام پاکستان کے وقت لاکھوں لوگوں نے لبرل نہیں اسلامی پاکستان کے لیے قربانیاں دی تھیں، انھوں نے یہ بھی کہا کہ اسلامی جمیعت کے طلبا نے ملکی بقا و سلامتی کے لیے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔

بلاشبہ اس ملک کی اکثریت دین اسلام کو ماننے والی ہے اور بلاتفریق تمام ہی اکثریت کا قرآن پاک پر ایمان ہے اور یہ قرآن ان کی زندگیوں کے تمام فیصلے کرنے میں رہنمائی بھی فراہم کرتا ہے، اسی طرح سود کا معاملہ ہے جس پر مسلمانوں کے تمام مسالک کا بھی متفقہ فیصلہ ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں سود کی لین دین کرنا اللہ تعالیٰ سے کھلی جنگ ہے۔
ایسے ہی اور بھی کافی سارے معاملات ہیں کہ جن پر قرآن و سنت سے ہمیں بڑی واضح ہدایت و رہنمائی ملتی ہے اور ان میں مسلکی اختلاف رائے بھی نہیں ہے مگر چونکہ ہماری اکثریت قرآن ترجمے کے ساتھ نہیں پڑھ رہی اور دوسری جانب جمہوری نظام کے تحفے کے باعث ’’عوام کے معاشی مسائل اور خواہشات‘‘ کو ہماری مذہبی جماعتیں بھی ترجیح دینے لگی ہیں لہٰذا اس ملک میں اسلامی نظام کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا، نہ ہی فی الحال دور تک اس کا اشارہ ملتا دکھائی دیتا ہے۔

چنانچہ ایسے میں امیر جماعت اسلامی کی جانب سے کراچی شہر کو عالم اسلام کے لیے ایک ماڈل شہر بنانے کا عزم دل کو تو خوش کرتا ہے مگر بہت مشکل تر ہے، راقم کی ناقص رائے میں اس سلسلے میں راستے دو طرف منقسم ہیں اور ان دونوں راستوں پر جدوجہد کی ضرورت ہے، ایک راستہ اوپر کی طرف جاتا ہے یعنی حکمرانوں اور پارلیمنٹ کی طرف اور دوسرا راستہ عوام کی طرف جاتا ہے۔ دونوں راستے انتہائی مشکل ہیں مثلاً عوام کی طرف جو راستہ جاتا ہے اس میں عوام کو قرآن کی تعلیمات سے آگاہی فراہم کرنا ہو گی، کیونکہ عوام کی بھاری اکثریت قرآن کو عموماً بیٹی کو رخصت کرتے وقت استعمال کرتی ہے یا قسم اٹھانے کے لیے یا پھر ایصال ثواب کے لیے صرف عربی زبان میں پڑھتی ہے۔

یوں اکثریت کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ قرآن ہم سے کیا تقاضا کر رہا ہے۔ یوں کراچی شہر کو اسلامی ماڈل بنانا ہو تو پھر پہلے شہریوں کو قرآن کے مطالعے کی طرف راغب کرنا ہو گا، دوسرے اسلامی تنظیموں سے وابستہ افراد کو اپنا ہر عمل اور اخلاق اس قدر مثالی بنانا ہو گا کہ لوگ خود ان کو ماڈل سمجھیں۔ (مثلاً جامعہ کراچی میں اس تنظیم سے نظریاتی وابستگی رکھنے والے اساتذہ جب کلاسوں میں لیکچر دینے جائیں تو لازمی گاؤن پہنیں، اسی طرح طلبا خاص کر طالبات بھی گاؤن پہن کر جامعہ آئیں، یوں نہ صرف تعلیمی نظم و ضبط قائم ہو گا بلکہ اسلامی نقطہ نظر سے طالبات میں بے پردگی کا بھی خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔)
دوسری جانب پارلیمنٹ میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے غیر اسلامی قانون سازی کو روکنے کی کوشش کی جائے، یہاں بڑے افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ صوبہ سندھ اور پنجاب اسمبلیوں سے شادی کی عمر سے متعلق قطعی غیر اسلامی قانون کی منظوری بھی ہوئے ایک عرصہ ہو چکا مگر افسوس نہ تو کسی مذہبی جماعت کے رکن اسمبلی سے اس پر احتجاج ہوا، نہ ہی انفرادی طور پر کسی کی جانب سے اعتراض ہوا۔ یوں اٹھارہ سال سے کم عمر میں شادی کرنے پر سزا کا قانون اسمبلیوں سے پاس ہو کر نافذ بھی ہو گیا، حالانکہ یہ نوجوانوں کے بنیادی حقوق کے خلاف قانون سازی تھی مگر کسی این جی او نے بھی اس پر آواز بلند نہ کی۔ ایسے میں ایک شہر کس طرح اسلامی طور پر ماڈل بن سکتا ہے؟ کہ جب اس نے اپنے احتجاج کا حق بھی استعمال نا کیا جائے؟
اسی طرح سود کے مسئلے پر سپریم کورٹ کے ایک جج کے بیان کو دیکھ لیجیے کہ جس کو سود نہیں لینا ہے وہ نہ لے اور جو سود لے رہا ہے اس سے خدا خود پوچھ لے گا۔ سوال یہ ہے کہ ایسا تو غیر اسلامی ممالک میں بھی ہوتا ہے کہ جہاں مسلمان اپنا سود بینک میں ہی چھوڑ دیتے ہیں، پھر ہمیں آگ اور خون کا دریا عبور کر کے ایک الگ وطن حاصل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اسی طرح یہ بھی قابل غور بات ہے کہ کسی قتل کرنے والے کو بھی اس منطق پر چھوڑ دیا جائے کہ قتل کرنے والے کو خدا خود پوچھے گا!۔
سود کے خاتمے کے سلسلے میں کسی جج کی طرف سے اس قسم کے بیان پر جماعت اسلامی سمیت تمام تنظیموں کی جانب سے سخت احتجاج کی جو توقع تھی وہ پوری نہ ہو سکی، ایسے حالات میں کراچی شہر کو مثالی اسلامی شہر بنانے کے عزم سے کہیں زیادہ ضرورت سود کے خلاف ایک بڑی تحریک چلانے کی ہے کیونکہ یہ مسئلہ ایک طویل عرصے سے چلا آ رہا ہے، اسلامی نظریاتی کونسل نے تقریباً دو سال بینکنگ نظام کا جائزہ لینے کے بعد 1966 میں سودی نظام کو خلاف اسلام قرار دیا تھا، 1969 میں اسلامی نظریاتی کونسل نے ایک بار پھر اپنی رپورٹوں کا اعادہ کیا۔ پھر 1973 کے آئین کے تحت حکومت کو جلد از جلد سودی نظام کے خاتمے کی ذمے داری دی گئی۔
صدر ضیاء الحق کے زمانے میں بھی کوششیں جاری رہیں، اس دور میں وفاقی شرعی عدالت کا قیام عمل میں آیا اور سپریم کورٹ میں شریعت اپیل بنچ بھی بنا لیکن وفاقی شرعی عدالت کو پابند کر دیا گیا کہ وہ دس سال تک مالی معاملات میں شریعت کے حوالے سے کوئی کیس نہیں چلائے گی۔ 1991 میں وفاقی شرعی عدالت نے ایک فیصلے کے ذریعے جون 1992 سے بینک کے سودی کاروبار کو حرام قرار دے دیا۔
اس فیصلے کے خلاف حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کر کے حکم امتناعی حاصل کر لیا، 1999 میں پاکستان کی سپریم کورٹ کے فل بنچ نے سود کے خلاف فیصلہ دے دیا مگر مشرف دور حکومت میں ایک پرائیویٹ بینک کے ذریعے نظرثانی کی درخواست دائر کر دی گئی، پھر گڑ بڑ کی گئی اور نتیجے میں ایک بنچ بنایا گیا جس نے سپریم کورٹ کے گزشتہ فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ وفاقی شرعی عدالت میں یہ کیس پندرہ سال سے پڑا ہے اور نہ جانے کب تک پڑا رہے؟
یہاں یہ مختصر سی روداد بیان کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ سود کے خاتمے سے متعلق اتنی مضبوط طاقتوں کے مفادات وابستہ ہیں کہ وہ ہر موقع پر کوئی نہ کوئی ہاتھ دکھا جاتی ہیں، لہٰذا ان سے نمٹنے کے لیے بھی تمام دینی قوتوں کو متحد ہو کر زور لگانا ہو گا، محض خواہشوں سے کچھ نہ ہوگا۔
کراچی شہر کو مثالی اسلامی شہر بنانے کو خواہش ضرور اچھی ہے مگر اس مثالی شہر کے صوبے میں اگر اٹھارہ سال سے کم عمر میں نکاح کرنے کی سزا مقرر ہو اور اس مثالی شہر کی ریاست میں سودی نظام جاری ہو تو یہ شہر کسی روشن خیال نظریات رکھنے والوں کے لیے تو مثالی ہوسکتا ہے مگر عالم اسلام کے لیے ایک ماڈل شہر نہیں بن سکتا۔ آئیے غور کریں کہ کم از کم مذکورہ بالا دو معاملات میں ہمارا قرآن کیا کہتا ہے؟
ڈاکٹر نوید اقبال انصاری