کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعائیں

یہ کچے گھروندوں کی بستی نہیں ہے، جہاں کے باسی کبھی بارش نہ ہونے کی دعائیں مانگیں۔ یہ کنکریٹ کا شہر کراچی ہے، جہاں کے باشندے بارش سے خوف زدہ ہوتے ہیں۔ اسی شہر کے ایک بیٹے جاذب قریشی کو یہ کہنا پڑا

کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعائیں
تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھو

یہ عروس البلاد نہ صرف پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے بلکہ دنیا کے دس بڑے شہروں میں اس کا شمار ہوتا ہے اور اب بارشوں میں ہونے والی تباہی کی خبریں اس شہر کا عالمی ذرائع ابلاغ میں تعارف بن گئی ہیں۔ ایک زمانہ تھا، جب یہ شہر ایشیاء کے خوبصورت ترین اور ترقی یافتہ شہروں اور خطے کے تجارتی مرکز کے طور پر عالمی شہرت کا حامل تھا۔ امریکی اور یورپ کے لوگ برصغیر ہندوستان یا تقسیم کے بعد پاکستان کے بارے میں اتنا نہیں جانتے تھے، جتنا وہ کراچی کے بارے میں معلومات رکھتے تھے۔ کراچی اپنے بہترین بلادی انتظام و انصرام، انتہائی صاف شاہراہوں، سڑکوں اور گلیوں، فن تعمیر کی شاہکار خوبصورت عمارتوں جدید انفراسٹرکچر، عالمی معیار کے بازاروں، بہترین ٹرانسپورٹ اور اعلی تعلیم یافتہ روادار دانش ورانہ معاشرے کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا۔ اب اربن فلڈنگ، برسات میں انسانوں کی اموات، عمارتوں کے گرنے، گھروں کے ڈوبنے، غریبوں کی بچیوں کے جہیز پانی میں بہہ جانے، جانوروں کی طرح انسانوں کے مرنے اور سڑکوں پر گاڑیوں کے تیرنے کی خبروں میں اس شہر کا تذکرہ ہوتا ہے۔ اب ذرائع ابلاغ چیخ چیخ کر یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ دنیا کا سب سے گندہ اور ناقابلِ انتظام شہر بن گیا ہے، جہاں تھوڑی سی بارش زندگی کو نہ صرف مفلوج کر دیتی ہے بلکہ اکثر گنجان آباد علاقوں میں زندگی عذاب بنا دیتی ہے۔

یہ شہر پاکستان کو 70 فیصد ریونیو دیتا ہے اور یہاں کراچی پر 5 فیصد بھی خرچ نہیں کیا جاتا۔ کراچی کی زمینوں کا شمار دنیا کی مہنگی ترین رئیل اسٹیٹ میں ہوتا ہے۔ ملک اور براعظم فتح کرنے کے بجائے کراچی کو فتح کرنا ہی کافی ہے۔ اس شہر کی تزویراتی ( اسٹرٹیجک ) اہمیت ہے۔ یہ جنوبی ایشیاء کا گیٹ وے ہے۔ کراچی کی امارت اور تزویراتی اہمیت کے ساتھ ساتھ کراچی کی تباہی و بربادی کی بھی اہمیت ہے کیونکہ اس شہر کی تباہی و بربادی خطے کے بعض دیگر شہروں اور ریاستوں کی ترقی کی ضمانت ہے۔ کراچی کی تباہی اور یہاں ہونے والی دہشت گردی بھی کراچی کے وسائل کی طرح کچھ لوگوں کے لئے اہم ہے۔ اس لئے کچھ قوتوں کے مفادات کراچی کے مسائل سے وابستہ ہیں اور کچھ قوتوں کے مفادات کراچی کی تباہی اور یہاں ہونے والی دہشت گردی سے منسلک ہیں۔ ان تمام قوتوں کے لئے کراچی مالا مال ہے۔ بدنصیب صرف اس شہر کے عام باسی ہیں، جن کا کراچی کے نام نہاد وارثوں کی جنگ میں کسی بھی سطح پر کوئی حصہ نہیں ہے۔ کراچی کا وارث بننے کی جنگ میں بظاہر سیاسی قوتوں کے ساتھ ساتھ حکومتی اور ریاستی ادارے بھی ہیں اور وہ طاقتیں بھی ہیں، جو اس پیچیدہ جنگ میں ظاہر مہروں کو استعمال کرتی ہیں۔ ایسی سیاسی قوتیں بھی ہیں، جنہیں کراچی پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی کرنا پڑے، کرتی ہیں۔ ان کی سیاست کراچی تک محدود ہے۔

کچھ سیاسی قوتیں ایسی ہیں، جو پورے ملک کی سیاست کرتی ہیں لیکن انہیں کراچی پر حکومت کرنے کے لئے صرف سندھ تک محدود رہنا پڑے تو ان کے لئے یہ سودا گھاٹے کا نہیں ہے۔ یہاں ’’قیامِ امن کی کوششیں‘‘ بھی مخصوص مفادات سے جڑی ہیں۔ عالمی اور علاقائی طاقتیں اپنی مرضی سے اس جنگ کو جب چاہیں اور جو چاہیں، اپنا رخ دے دیتی ہیں۔ سیاست کے لئے شہر کے نکاسی آب کے نظام کو تباہ کر دیا گیا۔ خراب ہوتی ہوئی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے جو نئے منصوبے بنائے گئے، ان کے بجٹ کرپشن کی نذر ہو گئے۔ اس شہر کی بربادی میں وہ تمام سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں شامل ہیں، جو اس کی وارث ہونے کی دعویدار ہیں۔ اس اجڑے دیار کے مسائل کا آج کوئی یہ حل بتا رہا ہے کہ کراچی کو الگ صوبہ بنا دیا جائے اور کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ کراچی کو صرف اس صورت میں ترقی دی جا سکتی ہے کہ علیحدگی پسند قوتوں اور ان کی پشت پناہی کرنے والی قوتوں کی کراچی میں مداخلت ختم ہو۔

اب کراچی کی بارشوں میں ایک بار پھر کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ کراچی کو وفاق کے زیر انتظام دے دیا جائے۔ کراچی کو وفاق کے سپرد کرنے والے آج کل یہ وصل دے رہے ہیں کہ وفاق کے زیر انتظام ادارے نیشنل ڈزآسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ( این ڈی ایم اے ) نے چار دن میں کراچی کے نالوں کی صفائی کا کام کرا دیا۔ ان سے کوئی پوچھے کہ وفاق نے کراچی کے وہ منصوبے کیوں روک رکھے ہیں، جن کی فنڈنگ وفاق کو کرنی ہے۔ ان میں گرین لائن بی آر ٹی منصوبہ اور پانی کا ’’کے 4‘‘ منصوبہ بھی شامل ہیں۔ کراچی کے حوالے سے سندھ حکومت پر چند دن کی میڈیا کی تنقید کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وفاق نے سندھ حکومت کے خرچے پر کارنامہ انجام دے دیا۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ بارشیں تو کراچی پر ہونے والی سیاست کو بے نقاب کر دیتی ہیں۔ بقول جمال احسانی

تمام رات نہایا شہر بارش میں
وہ رنگ اتر ہی گئے، جو اترنے والے تھے

اب مفادات کی جنگ ختم ہونی چاہئے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو سب کو پچھتاوا ہو گا۔ کب تک حبس زدہ کراچی کے لوگ بارش کی دعائیں نہیں مانگیں گے۔

نفیس صدیقی

بشکریہ روزنامہ جنگ

کیا فوج کراچی کو اربن فلڈنگ سے بچا سکتی ہے؟

پاکستان کے محکمۂ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ رواں ہفتے موسلا دھار بارشوں سے کراچی اور حیدرآباد میں ‘اربن فلڈنگ’ کا خدشہ ہے۔ اس لیے تمام متعلقہ ادارے الرٹ رہیں۔ محکمۂ موسمیات کے مطابق خلیج بنگال سے مون سون کا کم دباؤ سندھ میں داخل ہونے کا امکان ہے۔ جس کے باعث رواں ہفتے کے دوران سندھ، جنوبی پنجاب اور مشرقی بلوچستان میں مون سون ہوائیں شدت کے ساتھ داخل ہوں گی۔ چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز کے مطابق بارشوں کا یہ سسٹم کافی طاقت ور نظر آتا ہے۔ جس سے زیریں سندھ میں خاص طور پر زیادہ بارشیں متوقع ہیں۔

فوج کی مدد سے نالوں کی صفائی شروع
وفاقی حکومت کی ہدایات پر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے فوج کی مدد سے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں نالوں کی صفائی کا کام شروع کر دیا ہے۔ کراچی میں گزشتہ ہفتے ہونے والی بارشوں نے کئی علاقوں میں سیلابی کیفیت پیدا کی تھی۔ جس کے سبب کئی انسانی جانوں کا ضیاع اور شہریوں کو بھاری مالی نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔ چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل کا کہنا ہے کہ پہلے مرحلے میں شہریوں کو بارش کی تباہ کاریوں سے بچاؤ کے لیے فی الحال ابتدائی کام اور پھر دوسرے مرحلے میں طویل المدتی بنیادں پر حل تلاش کیا جائے گا۔ چئیرمین این ڈی ایم اے کا کہنا تھا کہ فوج کو ‘ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ 2010’ کے تحت سول اداروں کی مدد کے لیے طلب کیا گیا ہے۔ اُن کے بقول کور کمانڈر کی قیادت میں فوج کی فائیو کور، فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے ساتھ مل کر اس موسم میں پھیلی تباہی کو کم کرنے کی کوشش کرے گی۔ تاکہ لوگوں کو آنے والی بارشوں میں کسی حد تک ریلیف دیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں اس وقت بارش کے پانی کی نکاسی کا نظام اپنی استعداد سے پہلے ہی زیادہ کام کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ ابتدائی طور پر عارضی نوعیت کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے اعتراف کیا کہ کراچی کا یہ مسئلہ اس کام سے مکمل طور پر حل نہیں کیا جاسکتا۔ چیئرمین این ڈی ایم اے کے بقول کراچی شہر کے مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جن میں سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، آبادی کے بے حد پھیلاؤ اور نالوں پر تجاوزات جیسے گھمبیر مسائل ہیں۔ ان کے بقول سیوریج اور برساتی پانی کا نظام غلط ملط ہے۔ اس صورتِ حال میں طویل المدت منصوبہ بندی کے لیے حل نکالنا ضروری ہے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ دوسرے مرحلے میں جو رواں سال ستمبر کے وسط سے شروع ہونے کی توقع ہے۔ اس میں شہر کے تمام اسٹیک ہولڈرز اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کے مختلف اداروں کے درمیان اس معاملے کے حل کے لیے اتفاق رائے کی ضرورت ہو گی اور فیزیبلٹی رپورٹ سامنے آنے کی صورت میں اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے کام شروع ہو سکتا ہے۔ چئیرمین نے بتایا کہ اس مقصد کے لئے ‘اسپارکو’ سے پانی کے بہاؤ کے راستوں سے متعلق تفصیلی تجزیہ حاصل کر کے سیوریج اور برساتی پانی کی نکاسی کے نظام کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کو بہتر بنانے اور کراچی میں غیر قانونی تجاوزات کا خاتمہ ضروری ہے۔

فوجی حکام اور صوبائی حکومت کے درمیان مشاورت مکمل
سندھ حکومت کے ترجمان بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے این ڈی ایم اے کو جاری کردہ ہدایات پر تنقید کی ہے۔ ان کے بقول نالوں کی صفائی سے متعلق این ڈی ایم اے، فوج کے اعلیٰ افسران اور صوبائی حکومت کے درمیان مشاورت عید سے قبل ہی مکمل کر لی گئی تھی۔ جس کے بعد این ڈی ایم کے ذریعے تین بڑے نالوں کی صفائی کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔ جن میں گجر نالہ، اورنگی نالہ اور سی بی ایم نالہ شامل ہیں۔ ترجمان وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومت کی حمایت سے ایسے تمام مقامات سے تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے گا جو برساتی پانی کی گزرگاہیں ہیں۔

کراچی میں حالیہ مون سون کے تین اسپیل ہو چکے ہیں۔ جس میں ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں 63 سے 86 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ جب کہ شہر کے موجودہ انفراسٹرکچر میں 30 منٹ کی بارش میں 25 سے 30 ملی میٹر تک برداشت کرنے کی گنجائش ہے۔ حکام کے مطابق کئی علاقوں میں وفاقی حکومت کی فنڈنگ سے جاری ‘ریپڈ بس پراجیکٹ گرین لائنز’ کے انفراسٹرکچر کی وجہ سے بھی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ کور کمانڈر کراچی اور چیئرمین این ڈی ایم اے نے وزیرِ اعلیٰ سندھ کو یقین دلایا کہ وہ نالوں اور گرین لائن منصوبے کے ڈیزائن کے نقائص کی اصلاح کے لیے حکومت سندھ کے ساتھ تعاون کریں گے۔ جب کہ حکومت سندھ نے بھی یقین دلایا کہ نالوں کے ساتھ تجاوزات کے خاتمے میں معاونت کی جائے گی۔

واضح رہے کہ صوبائی دارالحکومت میں شدید بارشوں سے تباہی اور ملک کے معاشی مرکز کہلائے جانے والے کراچی شہر میں معمولات زندگی بری طرح متاثر ہونے پر پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ تاہم صوبائی حکومت کے وزراء اور مشیروں کا کہنا ہے کہ میڈیا پر ہونے والی تنقید یکطرفہ اور نامناسب ہے۔ کراچی میں بارشوں کے موسم میں معمولات زندگی متاثر ہونا نئی بات نہیں۔ ماہرین کے مطابق اس کی بنیادی وجہ شہر میں یومیہ پیدا ہونے والے 20 ہزار ٹن کچرے کو ٹھیک طریقے سے ٹھکانے نہ لگانا، ندی نالوں کی صفائی نہ ہونا، پختہ تجاوزات، اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاق رائے کی کمی اور بلدیاتی اداروں کی نااہلی قرار دی جاتی ہے۔

محمد ثاقب

بشکریہ وائس آف امریکہ

کراچی کو بچا لو، کراچی ڈوب رہا ہے

دو دن کی بارش کراچی شہر کو لے ڈوبی، کہیں کہیں تو کمر تک پانی تھا تو کہیں گردن تک۔ بارش اتنی زیادہ تو نہیں تھی ہاں پانی کو نکاسی کے ذرائع میسر نہیں تھے۔ اس شہر کی بدقسمتی یہ ہے کہ اختیار کسی کا ہے اقتدار کسی کا ہے، جلتی پر تیل ڈالنے والے کوئی اور ہیں اقتدار و اختیار کی رسہ کشی نے کراچی کا بیڑا غرق کر دیا ہے اوپر سے کریلا نیم چڑھا مرکز اپنا پورا زور لگا رہا ہے کسی طرح سندھ کی جان پیپلز پارٹی سے چھڑائی جائے۔ مرکزی حکومت کے ارکان سندھ اسمبلی کی پوری کوشش ہے کہ وہ کراچی کےحالات بد سے بدتر کس طرح کریں تاکہ پیپلز پارٹی تنگ آمد بجنگ آمد خود مرکز سے درخواست کرے کہ کراچی میں گورنر راج نافذ کر دیا جائے۔ یہ وہی شہر تھا جسے جماعت اسلامی کے مئیر جناب نعمت اللہ خان نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے چار چاند لگا دیے تھے، کراچی کو ایک مثالی شہر بنا دیا گیا تھا۔

اُن کے بعد آنے والے مئیر مصطفیٰ کمال جن کا تعلق ایم کیو ایم سے تھا، یہ جماعت اس وقت اپنے عروج میں ہر قسم کی بدنامی میں ملوث تھی، اس کے باوجود شہر میں ہر طرف بھرپور ترقیاتی کام ہوئے، مصطفیٰ کمال کو دنیا کا بہترین مئیر ہونے کے بین الاقوامی اعزاز سے نوازا گیا۔ مصطفیٰ کمال کے بعد ان چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ ان کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت تو آئی لیکن بلدیاتی نظام ایم کیو ایم کے ہاتھ رہا ایمُ کیو ایم کو چونکہ اقتدار میں حصہ نہیں مل سکا اس لئے ان میں رسہ کشی شروع ہو گئی، نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے والا رویہ اپنا لیا۔ اس کے جواب میں پیپلز پارٹی نے بھی اپنا رویہ سخت کر لیا اور ایم کیو ایم کے بلدیاتی کاموں کے رستے میں رکاوٹیں کھڑی کر کے اُسے ناکارہ بنانے کی حکمت عملی اپنائی۔ پونے تین کروڑ آبادی کے شہر کو اقتدار کی کشمکش نے کچرا کنڈی بنا دیا، اقتدار اور انتظام کی انتقامی جنگ نے کراچی کا حشر نشر کر دیا ہے۔

دراصل سارا مسئلہ فنڈ کا ہے، مئیر کے قول کے مطابق جو فنڈ حکومتِ سندھ دیتی ہے اُس سے ملازمین کی تنخواہیں بھی پوری نہیں ہوتیں تو ترقیاتی کام کہاں سے ہوں جبکہ سندھ کے وزیر بلدیات اور وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ بلدیہ کی ضرورت کے مطابق فنڈ مہیا کئے جاتے ہیں مئیر کام کرنا ہی نہیں چاہتے۔ کراچی کا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں سندھ حکومت اپنے مینڈیٹ پر پورا نہیں اُتر سکی اس لئے مجبوراً کراچی میں فوج نے صفائی ستھرائی کا کام سنبھال لیا۔ بڑے پیمانے پر نالوں کی صفائی کا آغاز این ڈی ایم اے کی زیر نگرانی شروع کیا جا چکا ہے، ساتھ ہی افواجِ پاکستان کی زیر نگرانی ایف ڈبلیو او کی مشینری کی مدد سے کام شروع کر دیا گیا ہے، نارتھ ناظم آباد اور گجر نالوں کی صفائی کا کام جاری ہو چکا ہے، ایف ڈبلیو او کی پچاس سے زیادہ کرینیں ڈمپر فوج اور رینجرز کی نگرانی میں کام کر رہی ہیں۔ پہلا موقع ہے کہ کراچی کے نالوں کی اس طرح منظم طریقہ سے صفائی کی جارہی ہے۔

بارش سے نمٹنے کے لئے بڑے پیمانے پر کام شروع ہو چکا ہے، امید ہے کہ آنے والے دنوں میں ہونے والی بارش سے اس قدر نقصانات نہیں ہونگے، جس قدر نقصان گزشتہ چند روزہ بارش سے ہوا۔ چیئر مین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل کا کہنا ہے کہ شہر کے بڑے نالے ایف ڈبلیو او کے سپرد کر دیے گئے ہیں۔ آنے والی مون سون بارشوں سے بروقت نمٹنے کےلئے بڑے پیمانے پر کام شروع ہو چکا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کراچی کے مسائل کے حل کے لئے وفاق اور صوبائی حکومت کوایک ساتھ بیٹھنا ہو گا تاکہ کوئی دیر پا حل نکل سکے کیونکہ فوری اقدام سے وقتی ریلیف تو عوام کو ملے گا مگر مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ کراچی میں نالوں پر قائم تجاوزات نے تین سو فٹ چوڑے نالوں کو سکیڑ کر کہیں کہیں تین میٹر تک کر دیا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ نالے اپنی اصلی چوڑائی میں بحال کئے جائیں تاکہ آئندہ بارش کی تباہ کاری سے محفوظ رہا جا سکے۔

کراچی کے اصل مسائل کو حل کرنے کے لئے ضروری ہے ان پر سنجیدگی سے غور کیا جائے اور انہیں سمجھا جائے ایک دوسرے کے کندھوں پر ڈال کر بری الزمہ نہیں ہوا جا سکتا۔ کراچی جس کی آبادی تقریباً پونے تین کروڑ کے لگ بھگ ہے یہاں روزانہ بیس ٹن کچرا بنتا ہے جسے روز کے روز ٹھکانے لگانا بہت ضروری ہے، ورنہ ہر دن کے ساتھ کچرے کے ڈھیر لگتے چلے جائیں گے۔ کراچی کے کچرے کو ٹھکانے لگانے کا کوئی معقول بندوبست نہیں ہے۔ عام طور پر گھریلو کوڑا کرکٹ زیادہ تر قریبی ندی نالوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ نالے جو پہلے ہی تجاوزات کیوجہ سےاپنی استعداد کھو چکے ہیں، کچرے نے انہیں اور محدود کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے جو نالے بارش کے پانی کو برداشت نہیں کر سکے اور شہر کے ڈوبنے کا سبب بنے۔ اللہ کرے افواج پاکستان کے زیر نگرانی ہونے والے انتظام و کام سے کراچی کو بچایا جا سکے۔

مشتاق احمد قریشی

بشکریہ روزنامہ جنگ

بارش اور کراچی کا ڈھانچہ

مون سون کے چوتھے سلسلے میں کراچی سمیت صوبہ سندھ کے کئی علاقوں کے انتظامی ڈھانچوں کی بوسیدگی ایک بار پھر کھل کر سامنے آگئی۔ برکھارت، جس کا کبھی خوشگوار اور احساسات کے ساتھ استقبال کیا جاتا تھا، کراچی والوں کے لئے اس اعتبار سے قیامت بن گئی کہ شام سے رات گئے تک وقفے وقفے سے جاری رہنے والی تیز بارش سے بجلی غائب ہو گئی، 70 فیصد شہر تاریکی میں ڈوبا رہا، نشیبی علاقوں میں کئی کئی فٹ پانی جمع ہو گیا، سڑکیں تالاب بن گئیں جبکہ نکاسیٔ آب کے ناقص نظام، گند، تعفن اور کئی راستوں کی خستہ حالی نے مل کر مزید پریشانیاں پیدا کیں۔ ٹریفک کی روانی متاثر ہونے کے باعث منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوا جبکہ گلستانِ جوہر میں کرنٹ لگنے سے ایک نوجوان جاں بحق ہو گیا۔ یہ صورتحال اس امر کے باوجود نظر آئی کہ محکمہ موسمیات کی طرف سے ایک ہفتہ قبل جمعرات کی بارش کی پیش گوئی کی گئی تھی۔

اچھا ہوتا کہ مذکورہ پیش گوئی کے جواب میں صوبائی، شہری، بلدیاتی اداروں کی سطح پر عملاً کوئی موثر حکمت عملی نظر آتی۔ کراچی میں جمعہ اور ہفتے کے روز بارش کی شدت زیادہ رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے جس سے سندھ کے دیگر علاقے بھی متاثر ہوں گے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبائی اور مقامی انتظامیہ زیادہ مستعد نظر آئے۔ کراچی میں این ڈی ایم اے کو صوبائی و شہری انتظامیہ کی مدد کی ذمہ داری پچھلے دنوں سونپی گئی تھی اور کئی نالوں سے بڑی مقدار میں گندگی نکالی بھی گئی ہے۔ اچھا ہو کہ یہ معاونت زیادہ وسیع پیمانے پر نظر آئے۔ یہ یاد دہانی بھی ضروری ہے کہ نکاسیٔ آب کے نالوں، پارکوں اور کھیل کے میدانوں کو نامعلوم طریقوں سے عمارتوں کے لئے الاٹ کرنے کا عشروں سے جاری سلسلہ بند کیا جائے اور صحت، صفائی، خوبصورتی سمیت ماحولیاتی کی تقاضوں کو بہرصورت ملحوظ رکھا جائے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

میجر جنرل آصف غفور کی کراچی کی سڑک پر نوجوانوں کے ساتھ کرکٹ

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور کی کراچی کی سڑک پر نوجوانوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتے ہوئے ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کراچی کی ایک سڑک پر رات گئے کچھ نوجوانوں کے ساتھ آصف غفور کسی پروٹوکول یا سیکیورٹی کے بغیر انتہائی خوشگوار موڈ میں کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ اپنے درمیاں پاک فوج کے اتنے اہم عہدے پر فائز افسر کو پا کر کراچی کے نوجوانوں نے خوبصورت شاٹس لگانے پر انہیں خوب داد دی اور بعد ازاں ان کے ساتھ سیلفیاں بھی بنوائیں۔ خیال رہے کہ میجر آصف غفور کرکٹ سے انتہائی شغف رکھتے ہیں اور اس سے قبل وہ پاکستان سوپر لیگ (پی ایس ایل) 3 کے کراچی میں ہونے والے فائنل سے بھی خوب محظوظ ہوئے تھے۔

یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے دہشت گردی کے شکار ملک کے سب سے بڑے شہر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی انتھک محنت کی بدولت اب سیکیورٹی کی صورتحال بہت بہتر ہے۔ ادھر گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے بھی ٹوئٹ کرکے شہر میں امن و امان کی بہتر صورتحال پر خدا کا شکر ادا کیا اور میجر جنرل آصف غفور کو سڑک پر کرکٹ کھیلنے کو سراہا، اس کے ساتھ انہوں نے شہرِ قائد میں امن کی بحالی پر پاک فوج، رینجرز اور دیگر سیکیورٹی اداروں کا شکریہ بھی ادا کیا۔ قبل ازیں پاکستان کے مایہ ناز کرکٹر شاہد آفریدی نے بھی ٹوئٹر پر مذکورہ ویڈیو شیئر کر کے شہر کی رونقیں بحال ہونے اور نائٹ کرکٹ سے لطف اندوز ہونے کا تذکرہ کیا جبکہ اس موقع پر انہوں نے ترکی میں موجود ہونے پر اظہارِ افسوس کیا اور قیام امن کے لیے سیکیورٹی اداروں سے اظہارِ تشکر بھی کیا۔

دوسری جانب میجر جنرل آصف غفور نے شاہد آفریدی کے پیغام کا دلچسپ جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ کی کمی محسوس ہوئی لیکن اگر آپ یہاں ہوتے تو کوئی مجھے بلا نہیں تھامنے دیتا۔ اس کے ساتھ انہوں نے کراچی کے نوجوانوں کی بھی تعریف کی اور رینجرز، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اقدامات کو سراہا۔ خیال رہے کہ شاہد آفریدی اور میجر آصف غفور کے انتہائی قریبی مراسم بھی ہیں اس سے قبل انہوں نے شاہد آفریدی کی صاحبزادی کی سالگرہ پر تحفہ بھجوایا تھا۔ جس کی ویڈیو انہوں نے اپنے ذاتی اکاؤنٹ پر بھی شیئر کی تھی، ویڈیو میں اسمارا شاہد تحفہ بھجوانے پر آصف غفور کا شکریہ ادا کرتی نظر آئی تھیں۔